Monday, February 4, 2013

Net or loog story

 آج مجھے انٹر نٹ پہ onlineہوئے کافی دن ہو چکے تھے
آج 2012ء کا ماہِ جنوری اپنے آخری عشرے میں پچھلے دو دن سے داخل ہو چکا تھا اور صرف دو دن باقی تھے اس مہینے کے شروع ہونے میں جس مقدس مہینے میں مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ کا ظہور ہوا تھا ۔ آج مجھے انٹر نٹ پہ onlineہوئے کافی دن ہو چکے تھے ۔ میرا آج دل کر رہا تھا کہ اپنی مسلمان قوم کی ان نسلوں کے احوال سے کچھ آگاہ ہو سکوں جن کو ہماری پچھلی نسلیں ہندستان کی سر زمین میں چھوڑ کے آئی تھیں ۔
میں نے جب سے انٹر نیٹ کا استعمال شروع کیا تھا میں اپنے ان بھائیوں سے بات کر کے خوش ہوتا تھا جن کا تعلق خواجہ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ کے ملک سے تھا ۔ میں نے رات کو اپنے کلینک پہ اپنا نیٹ onکیامیں نے نعت شریف کے Chat Room کو openکیا تو roomمیں میرے کانوں نے ایک پیاری آواز سنی کوئی بچہ پڑھ رہا تھا،
؂؂ دل جاں تجھ پہ قربان یا رسول اللہ ، ؂ ہم سب کی ہے پہچان یا رسول اللہ، ۔ اسی جگہ مجھے اپنا ایک دوست نظر آیا جس کو میں نے Textپہ لکھ کے پھولوں کے ساتھ محبت بھرا سلام بھیجا، مجھ کو بھی کچھ ایسی ہی محبت کے انداز میں میرے دوست نے جواب دیا ۔ اور ساتھ ہی سوال کیا کہ آپ اتنے دن کہاں تھے ؟ میں نے اپنی مصروفیت سے آگاہ کیا کہ جشنِ میلادِ مصطفےٰ ﷺکے سلسلے کی وجہ سے onlineنہ ہو سکا کہ تنظیم پاکستان سنی لیگ کی طرف سے یہ جو محفل رکھی گئی ہے یہ اس کی تنظیمی سطح پر پہلی محفل ہے، میں نے اپنی گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ پی ایس ایل کے اس شروع کئے گئے کام کے ذریعے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ہم اپنے عقائد نظریات اور دنیا میں موجود دوسرے مسلمان بھائیوں جو دوسرے ممالک میں موجود ہیں کے مسائل کے حل کے لئے سہارا بن سکیں ۔اس پہ اس نے میری بات کو سراہا اورtext پہ good لکھا۔میں نے کہا کہ میں نے نیٹ پہ مولانا ابو الکلام آزاد کی ایک تقریر سنی تھی جس میں انہوں نے نئی نسل سے مخاطب ہو کے کہا تھا کہ پاکستان وجود میں نہیں آنا چا ہیے تھا یہ فیصلہ غلط تھا کہ اس طرح ہندستان میں موجود دوسرے مسلمان کمزور ہو گئے ہیں ۔ مگر ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ پاکستان ضروری تھا ۔ یہ ملک ہم نے ایک نظریے کی بنیاد پہ حاصل کیا تھا ۔لیکن ہم ایک ایسی قوم کی نسل کو سنوارنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں جس قوم نے آزادی کے لئے اپنے گھر اپنی اولادیں اپنی عزتیں اپنی بیٹیاں قربان کی ہیں ۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ملک حاصل کرنا غلط تھا ۔ ہمارے سامنے ایک ایسی مثال قائم ہے کہ مصطفےٰ جان رحمت ﷺ نے جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی سر زمین پہ قدم مبارک رکھا تھا تو مسلمانوں کے لئے اس وقت مکہ میں اپنی عبادت کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ادا کرنے میں شیطان کے ایجنٹو ں کا سامنا تھا ۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ مدینہ کی سر زمین پہ آکر مسلمان ایک طاقت بن کے ابھرے، اور پھر جب واپس مکہ کی سر زمین کی طرف لوٹے تو مکہ بغیر جنگ کے ہی فتح ہو گیا تھا ۔اسی روشنی میں یہ ملکِ پاکستان بھی اور اس میں رہنے والے بھی آنے والے زمانوں میں اس بات کو انشاء اللہ ثابت کر دیں گے کہ جس خطے کو اللہ جلُ جلالہُ نے مسلمانوں کو 27 رمضان کو تحفے میں دیا تھا وہ کسی حکمت سے خالی نہیں تھا ۔ 
ہماری یہ ذمہ داری تھی اور ہے کہ ہم اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لئے ان کے حقوق کی آواز بلند کریں جن کو ہم ہندستان کی سر زمین پر چھوڑ کے آئے تھے ۔ اگر ہماری غفلت کی وجہ سے یہ احساس کمزور رہا ہے تو آج ۔۔۔۔ پی ایس ایل نے اس احساس کو مضبوط کرنے کے لئے قدم اٹھا دیا ہے ۔ کیوں کہ ہم مسلمان ہونے کے ناطے اس بات سے آگاہ ہیں کہ جیسی قوم ہو گی ویسے اس پہ حکمران مسلط ہو جائیں گے ۔ پی ایس ایل قوم کے نظریاتی فکری احساس کو اجاگر کرنے کے لئے کام شروع کر چکی ہے کہ جب قوم کی سوچ اور فکر درست ہو جائے گی تو اس خطے میں حکمران کوئی بھی مسلمان ہو وہی اصل پاکستان ہو گا ۔ اور یہ وہی ملک ہو گا جس کو اسلام کا قلع اور اسلام کی تجربہ گاہ کہا جائے گا۔
میرے دوست نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور مجھے دعاؤں سے نوازا ۔ اس نے کہا کہ کرناٹا سٹیٹ میں ایک مسلمان جو کہ مدنی کے نام سے مشہور تھا اور وہ مسلمانوں میں ایک لیڈر کے طور پر ابھر رہا تھا بھارتی حکومت نے اس کو ایک دیسی قسم کے بم دھماکوں کے جھوٹے کیس میں گرفتار کر لیا ہے اور اس ملک میں مسلمانوں کے ہر ابھرنے والے لیڈر کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔میرے دل میں ایک دکھی مسلمان بھا ئی کی بات سن کر جو دکھ ہو ا اور جو اس کی کیفیت تھی اس کا اندازہ لگانا آپ کے لئے مشکل ہو گا ۔

ہماری یہ بات ابھی جاری تھی کہ بجلی چلی گئی اور میں اپنے دوست سے بات کو جاری نہ رکھ سکا جس سے کافی دیر بعد بات ہو رہی تھی ۔ کیوں کہ UPSمیرے پاس نہیں ۔۔ہو بھی کیوں ؟کہ ہمارے گھر میں اس کے ناز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے ۔اب میرے دل میں جو دکھ اٹھا تھا اس نے مجھ کو وہ واقعہ یاد دلا دیا تھا کہ جب ایک فوجی پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کو ایک بھارتی ٹی وی چینل پہ ایک مولوی نے کہا تھا کہ آپ کو ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ بھارت کا مسلمان پاکستان کے مسلمان سے یہاں بہتر زندگی گزار رہا ہے جس پہ پروگرام میں موجود تمام ہندؤں نے تالیاں بجائی تھیں۔ مگر جب مجھے اس مولوی کے نام کا پتا چلا کہ یہ مولوی حسین احمد مدنی دیوبندی ہے تو میں نے کہا یہ ٹھیک کہتا ہے کیوں کہ ان کو ہندو دوستی پہ ناز ہے اس لئے کہ جب پاکستان بنا تو تب بھی دیوبندیوں نے مسلمانوں کی مخالفت کی تھی آج بھی وہ بھارت میں مزے میں ہیں آج بھی جو مشکل میں زندگی بسر کر رہا ہے وہ مسلمان ہی ہے کہ آج بھی جن کی بابری مسجد کو شہید کیا گیا وہ ہماری ہے ، جوبھارتی گجرات میں ظلم ہوا ہم پہ ہوا ان میں نہ کوئی غیر مقلد وہابی یعنی اہلِ حدیث تھا نہ کوئی مقلد وہابی یعنی دیوبندی تھا بلکہ سب ظلم کا شکار ہونے والے وہ مسلمان تھے جو یارسول اللہ کا نعرہ لگانے والے ہیں جو خواجہ کے دیوانے ہیں جو داتا کے مستانے ہیں ۔مگر یہ تو ہم پہ فرض تھا کہ ہم اپنے پورے جسم کا دکھ محسوس کریں مگر ہم کو کسی نے نیند کا انجکشن دے رکھا ہے 
اب جو جو ہوش میں آ رہا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اپنے اس جسم کے حصے کی طرف بھی توجہ کرے جو تکلیف میں ہے مگر دیکھائی نہیں دیتا۔ 

No comments:

Post a Comment